دس عظیم لوگ وہ جنہوں نے دنیا بدل دی


آ پ نے امیروں کی چیرٹی  کے سے کافی پڑھا او گا کافی سنا اور پڑھا ہو گالیکن زیر نظر تحریر میں ایسے لوگوں کے بارے بتائیں گے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔جنہوں نے تن تنہا انسانیت کی بھلائی اور فلاح کابیڑا اٹھایااور اپنی کمیونٹی پر انحصار کرتے ہوئے اسے وسیع مشن میں تبدیل کر دیا۔ذرائع ابلاغ کا معتبر نشریاتی ادارہCNN سن 2007ء سے انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں ’’سی این این ہیروز‘‘ ایوارڈ تقسیم کررہا ہے۔ یہ ایوارڈ ایسے بے غرض اور بے لوث افراد کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عام لوگوں کے ووٹوں سے دئیے جاتے ہیں۔ ذیل میں’’ سال 2013ء کا ہیرو ایوارڈ حاصل کرنے والی دس شخصیات ‘‘ کے کارناموں اور خدمات کا احاطہ کیاگیا ہے جنہیں ’’سی این این ہیروز‘‘ کا درجہ دیاگیا۔
ڈیل بیاٹے:ڈیل بیاٹے کا تعلق شمالی کیرولینا سے ہے‘ اس وقت اس کی عمر34سال ہے‘ یہ امریکن فوج میں خدمات سرانجام دے رہا تھا‘2004ء میں امریکی فوج کی طرف سے عراق جنگ میں شرکت کی۔ 15نومبر2004ء کو جب ڈیل بیاٹے عراق کے شہر(بائیجی) میں گشت پر تھا کہ اچانک بارودی سرنگ پھٹنے سے ایک زور دار دھماکا ہوا جن سے ڈیل بیاٹے کوبڑا نقصان اٹھانا پڑا‘ وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا ‘ اس حادثہ کے بعد اس کو واشنگٹن میں آرمی میڈیکل سنٹر لے جایاگیا‘ قدرت بھی بعض اوقات انسان کو ایسی آزمائش میں ڈال دیتی ہے جن کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ ڈیل بیاٹے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ‘ایک پل میں چاک چوبند سپاہی سے وہیل چیئر کا محتاج بن گیا لیکن ڈیل بیاٹے نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی اس کمزوری کا ازالہ کرنے کیلئے ایک سال ہسپتال میں مصنوعی ٹانگوں کے ذریعے چلنا پھرنا سیکھا‘ اس کے بعد اس نے اپنا آبائی گھر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ خود اس کی تعمیر میں مصروف ہوگیا۔ جب مقامی لوگوں نے بیاٹے کو مصنوعی ٹانگوں کے ذریعے گھر کی تعمیر میں مصروف دیکھا تو ان کو مصنوعی ٹانگوں سے چلنے والا ڈیل بیاٹے پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط دکھائی دیا‘ لوگ بیاٹے سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے ان کے ساتھ مل کر گھر کی تعمیر میں حصہ لیا۔ جب بیاٹے نے اس گھر کی تعمیر میں لوگوں کا یہ رویہ دیکھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خود کو صرف اس گھر کی تعمیر تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ اب اس کا مقصد ان تمام افراد کو گھروں کی فراہمی تھا جو جنگوں کے دوران معذور ہو چکے تھے ‘مالی بدحالی کا شکار تھے اور خود کو محدود کر چکے تھے‘ اس مقصد کیلئے بیاٹے نے اپنے ساتھ جان گلینا کو بھی شامل کرلیا جو15نومبر کو حادثے میں اس کے ساتھ شریک تھا اور یہ بھی اس حادثے میں دماغی چوٹ کا شکار ہوا تھا۔2008ء میں ان دونوں نے اپنی جمع شدہ اور امدادی رقم کو اس مقصد کیلئے وقف کیا اس پروجیکٹ کا نام ’’ہر پل ہارٹ ہوم‘‘ رکھاگیا جس کے تحت ویتنام کی جنگ سے لے کر حالیہ دنوں تک معذور فوجی جوانوں کیلئے ایسے گھروں کی تعمیر کرنا تھا جن میں یہ آسانی سے وہیل چیئر کو حرکت دی جا سکے معذوری کے باوجود ڈیل بیاٹے اب تک سو سے زائد معذور فوجیوں کیلئے گھر تعمیر کر چکا ہے۔ ڈیل بیاٹے کے اس کارنامہ پر سی این این نے انہیں2013ء کا بہترین سی این این ہیرو قرار دیا۔
جارج بیولے:(Georges bwelle)جارج بیولے کا تعلق وسطیٰ افریقہ کے ملک کیمرون سے ہے ۔بچپن میں ہی ان کے والد سرجری کے دوران ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے فوت ہو گئے۔ والد کی وفات پر ان کو شدید صدمہ پہنچا لیکن اس سے بڑھ کر ڈاکٹروں کی لاپرواہی نے ان کے دکھ میں مزید اضافہ کیا۔ اس حادثہ کے بعد جارج بیولے نے مستقبل میں ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا تا کہ ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر نہ صر ف غریب اور نادار لوگوں کا مفت علاج کرے بلکہ ڈاکٹروں کی کوتاہی سے ان کے والد کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس کا سامنا آنے والی نسل کونہ کرنا پڑے۔ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی ایک ٹیم بنائی جو رضاکارانہ طورپر ان کے ساتھ اس کام میں شریک ہوگئی۔ جارج بیولے ملک کے دور دراز علاقوں میں جاتا ہے اور علاج کیلئے پیسوں سے محروم غریب لوگوں کا مفت علاج کرواتا ہے۔ جارج بیولے سرجن ڈاکٹر ہے اور اب تک700 مفت سرجری کروا چکے ہیں ۔جارج بیولے اور اس کی ٹیم نے اب تک 32ہزار لوگوں کا مفت علاج کیا۔ انسان دوستی کی ان خدمات کے احترام میں سی این این نے جارج بیولے کو سال2013ء میں10بہترین ہیروز میں شمار کیا ہے۔
رابن ایمونس:48سالہ رابن ایمونس کا تعلق شمالی کیرولینا سے ہے ‘یہ20 سال تک امریکن کا رپوریٹ میں کام کرتی رہی لیکن2008ء میں اس نے نوکری سے استعفیٰ دیا اور خود کو گھر تک محدود کر دیا۔رابن ایمونس کے ساتھ ایک مسئلہ تھا اس کا بڑا بھائی دماغی توازن کھو چکا تھا‘ یہ کچرے کے ڈھیر سے چیزیں کھاتا تھا۔ رابن ایمونس سارا دن اس کے پیچھے گھومتی اور پھر واپس اس کو گھر لے آتی لیکن جب رابن گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی تو یہ پھر باہر نکل جاتا اور کچرے کے ڈھیر میں کھانے کی چیزیں تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتا۔ رابن نے علاج کی غرض سے ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن ڈاکٹروں نے ا سکی بیماری کو لاعلاج قرار دیا۔ جب ڈاکٹروں سے مایوسی ہوئی تو اس نے اس کی خود حفاظت کرنا شروع کر دی‘ یہ سارا دن اس کی دیکھ بھال کرتی ۔ اس دوران ا س نے محسوس کیا کہ جب وہ اپنے بیمار بھائی کو کھانے کیلئے تازہ پھل یا سبزی دیتی ہیں تو اس کے مرض کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہی سے رابن کی زندگی یکدم تبدیل ہو گئی۔ ان کا خیال تھا کہ علاقہ شارٹ لوٹ جو سیاہ فام غریب افراد پر مشتمل ہے اور جہاں70ہزار لوگ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ غربت کے مارے یہ لوگ مہینوں تازہ پھل اور سبزیاں کھانے سے محروم رہتے ہیں اور شاید ان کے علاقے میں بیماریوں کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی یہی ہے۔ رابن نے ان لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں تازہ پھل اور سبزیاں اگائی تا کہ اس سے اگنے والی فصل کو ان غریبوں میں مفت تقسیم کیاجائے۔جب یہ فصل تیار ہو گئی تو انہوں نے یہ تمام سبزیاں اور پھل غریب عوام میں بانٹ دئیے۔ رابن کے اس عمل سے وہاں کے لوگ بے حد متاثر ہوئے اور اس ضمن میں وہاں کے امیر طبقہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بہت جلد اس نے اپنے ساتھ دو سو رضاکاروں کی ٹیم تیار کر لی اور’’سومچ گڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد بھی رکھی۔ اس ادارے نے 2008ء سے اب تک 26ہزار ٹن تازہ سبزیاں اور پھل مفلس لوگوں میں تقسیم کئے۔ سی این این ہیروز کی لسٹ میں رابن ایمونس کو تیسرے نمبرپررکھاگیا ۔
ڈینیل گلیؤ:34سالہ ڈینیل گلیؤ کا تعلق امریکا کی ریاست نیوجرسی سے ہے‘ اس کی شادی جو ‘سے ہوئی اور کافی عرصہ تک یہ دونوں میاں بیوی اولاد کی نعمت سے محرو م رہے۔2006ء میں انہوں نے یتیم خانہ سے ایک بچہ گود لیا اور اس کی دیکھ بھال شروع کی۔ ڈینیل نے اس بچے کی پرورش کے دوران محسوس کیا کہ یتیم خانہ کی نسبت اس کی صحت میں رونما تبدیلی واقع ہوئی‘ یہ ہنسی خوشی اورکھیل کود میں مصروف رہتا اور اس خوشی کیلئے وہ یتیم خانہ میں ترستا تھا۔ یہ واقعہ ڈینیل کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی کا سبب بنا۔اس نے امریکا بھر کے یتیم خانوں میں چار لاکھ بچوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے اگست 2008ء میں انہوں نے ون سمپل وش کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس کا مقصد یتیم خانوں میں رہنے والے تمام بچوں کی خواہش پوری کرنا تھا تا کہ وہ خود کو باقی بچوں سے الگ تصور نہ کریں۔ ابتدا میں یہ اور ان کا شوہر مختلف یتیم خانوں میں بچوں کے پاس جاتے اور ان بچوں کی خواہشات کو پورا کرتے ‘ ان بچوں کو کپڑے جوتے اور کھیل کود کے سامان سمیت مختلف تحائف دئیے جاتے‘ انہوں نے اس کام میں اپنے دوست احباب سے مالی مدد بھی لی‘ اس طرح ڈینیل سالانہ ایک ہزار سے زائد بچوں کی مدد کرتی ہیں۔2008ء سے اب تک ون سمپل وش 6ہزار500 بچوں کی زندگی میں خوشی لانے کا سبب بنا ۔ڈینیل کے اس کارنامہ پر سی این این نے ان کو ہیروز کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر رکھا۔
ٹاونڈہ جونز:ٹاونڈہ جونز امریکا کی ریاست نیو جرسی کے شہر کامڈین کی رہائشی ہے‘ کامڈین امریکا کا غریب تر ین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک ترین شہر بھی تصور کیا جاتا ہے‘ اس شہر میں چوری ٗ ڈکیتی اور اقدام قتل کی واردات معمول کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر آپ دن کے 3بجے کسی بھی شاہراہ کا رخ کریں تو آپ کو گولیوں کی آوازیں سنائی دیں گی یہاں پر لوگ اپنے تحفظ کیلئے جرائم پیشہ گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں لہٰذا زیادہ تر بچوں کا مستقبل ان گروپوں سے وابستہ ہوتا ہے‘ ٹاونڈہ ہونے والے ان بچوں کو جرائم پیشہ افراد کے چنگل سے بچنے کی ٹھان لی اور ان کا مستقبل سنوارنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے اس نے Comden Sophisticaled sisters drill team کے نام سے ایک ڈانس ادارہ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بچوں کو مفت ڈانس سکھانا تھا تا کہ وہ جرائم میں ملوث ہونے کے بجائے ڈانس کے ذریعے لوگوں کو تفریح فراہم کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاونڈہ نے یہ1986ء سے شروع کر رکھا ہے اور اس وقت اس کی عمرصرف15 سال تھی‘27 سال کے عرصہ میں اس ادارے کے تحت4ہزار بچے ڈانس کا فن سیکھ چکے ہیں۔ سی این این ہیروز کی لسٹ میں ان کا نمبر پانچویں نمبرپر ہے۔
رچرڈ نیرز :رچرڈ نیرز کا تعلق کیلیفورنیا کے شہرمان ڈیاگو سے ہے۔2008ء میں اس کا بچہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگیا ‘علاج کے باوجود بیماری میں کمی واقع نہیں ہوئی اور یوں کینسر کی وجہ سے یہ اپنے پھول جیسے بچے سے محروم ہو گیا۔ رچرڈ نے اس کے بعد کینسر میں ہر بچے کی مدد کا فیصلہ کیا یہ چونکہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے کینسر ہسپتال کا قیام اس کے بس میں نہیں تھا۔ یہ ریڈی چلڈرن ہسپتال گئے جہاں پر اس کے بیٹے کا علاج بھی ہوا اورڈاکٹروں سے مشورہ کیا کہ وہ کس طرح کینسر میں مبتلا بچوں کی مدد کر سکتا ہے۔ رچرڈ کو محسوس ہوا کہ کینسر کے مریض ہفتہ میں پانچ چھ بار معائنہ کیلئے ہسپتال آتے ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی اور جب یہ دور دراز کے علاقوں سے ہسپتال آتے ہیں تو راستے میں ان کو ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے بہت اذیتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ رچرڈ نے ان لوگوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے کیلئے آرام دہ سفر مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ا س نے اپنی گاڑی اس مقصد کیلئے وقف کر دی۔ یہ دور دراز علاقوں سے کینسر میں مبتلا بچوں کو اپنی گاڑی میں ہسپتال لاتا اور اس دوران ہسپتال میں بھی ان کی بھرپور مدد کرتا اور پھر واپس گھر تک چھوڑنے کی ذمہ داری بھی اٹھالی جب اس نے دیکھا کہ اس اقدام سے لوگوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس نے ایمیلیو نیرز فاؤنڈیشن کے نا م سے فری ٹرانسپورٹ سروس کا آغاز کیا جو کینسر میں مبتلا غریب بچوں کیلئے پک اینڈ ڈراپ کی مفت سروس مہیا کرتا ہے۔ آج یہ ادارہ سالانہ 25ہزار بچوں کہ یہ مفت ٹرانسپورٹ سروس مہیا کررہا ہے۔ ایمیلیو فاؤنڈیشن کی بسیں سالانہ چالیس ہزار کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔ سی این این نے رچرڈنیرز کو اس کارنامہ پر ان کا نام ہیروز کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔
چاڈپری جریکا:چاڈپری جریکا ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے امریکا کے دریامسی سپی اور اس کے آبی راستوں کی صفائی کا تن تنہا بیڑا اٹھایا‘ پندرہ برس قبل ابتدا میں تنہا کام شروع کرنے والے چاڈپری جریکا کے ساتھ آج ستر ہزار رضاکاروں کی ٹیم ہے‘ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دریا کی صفائی کے دوران 67 ہزار سے زائد گاڑیوں کے ٹائر دو سو اٹھارہ واشنگ مشینیں انیس ٹریکٹر بارہ باتھ ٹب چار پیانو ایک ہزار کے قریب ریفریجریٹر نکالے ہیں۔ امریکی ریاست الیانوائس کے علاقے مولائن میں پروان چڑھنے والے اڑتیس سالہ چاڈپری جریکا جس مقام پر رہائش پذیر تھے دریائے مسی سپی اس کے ساتھ بہتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انہیں قدرتی طور پربچپن ہی سے دریا میں بہتے کچرے کو دیکھ کر کوفت ہوتی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دریا کی صفائی کے حوالے سے سب سے پہلے خود کو پھر مقامی آبادی کو راضی کیا اگرچہ اس دوران انہیں ’’دریا کا کچرا چننے والا‘‘ پکارا جاتا تھا تاہم انہوں نے ہمت نہ ہماری اور آج وہ نہ صرف اپنے کام پر فخر کرتے ہیں بلکہ مقامی لوگ بھی چاڈپری جریکا کے شانہ بشانہ ہیں ۔ واضح رہے کہ چاڈپری جریکا اب یہ کام ایک غیر منافع بخش تنظیم ’’لیونگ لینڈز اینڈ واٹرز‘‘ کے پلیٹ فارم سے کررہے ہیں اور اس دوران وہ دریا کی صفائی کے ساتھ ساتھ دریا کے اطراف میں دس لاکھ سے زائد درخت بھی لگا چکے ہیں اور مقامی لوگوں میں دریا میں صفائی کاشعور پیدا کرنے کے لئے مذاکرے اور سیمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔
ایسٹیلا پیفرام:ریاست فلوریڈا کے علاقے پام بیج سے تعلق رکھنے والی ’’ایسٹیلا پیفرام‘‘ ایک سکول ٹیچر تھیں۔ ایسٹیلاپیفرام جب ریٹائر ہوئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بچے کمپیوٹر کی تعلیم کمپیوٹر نہ ہونے کے باعث حاصل نہیں کرپاتے ہیں وہ انہیں کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جا کر دیں گی۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے ایک بس خریدی‘ اس میں سترہ کمپیوٹرز رکھے‘ انہیں تیز تر سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے جوڑا اور تعلیم کے سفر پر جانکلیں ۔ایسٹیلا اس وقت تک سینکڑوں بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جا کر ہفتہ واری بنیادوں پر فراہم کر چکی ہیں اور ہاں ایسٹیلا پیفرام کی جانب سے خالصتاً علمی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی اس کمپیوٹر تعلیم کے دوران فیس بک کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے۔ چھہتر سالہ ایسٹیلا پیفرام کی جانب سے تن تنہا شروع کئے جانے والے اس منصوبے کی پذیرائی کرتے ہوئے سی این این نے انہیں 2013ء کا سی این این ہیرو قراردیا ہے۔
کاکینیا نٹائیا:کاکینیا نٹائیا1978ء کو کینیا کے قصبہ نیروبی میں پیدا ہوئی۔ جب یہ 7 سال کی تھی تب اس نے سکول جانا شروع کیا‘ اس قصبہ میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی تھی اور زیادہ تر لڑکیوں کی مڈل پاس کرنے کے بعد شادی کروا دی جاتی تھی‘ صرف 11فیصد لڑکیاں پرائمری سکول تک جاتی تھیں جبکہ کینیا نٹائیا کو پڑھائی میں دلچسپی تھی‘ اس نے بہت کوشش کے بعد اپنے والدین کو تعلیم کیلئے راضی کرلیا اور ہائی سکول کے بعد اس کو امریکا کے رینڈوب ماکون گرلز کالج میں سکالر شپ بھی مل گئی۔ امریکا میں گریجویشن کے بعد یہ واپس اپنے گاؤں آئی اور لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں اس نے 2009ء میں کینیا سنٹر فار ایکسیلنس کے ایک سکول کی بنیاد رکھی جس میں تمام طالبات کو مفت تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ اب تک155طالبات اس کالج میں علم کی روشنی سے مستفید ہو چکی ہیں۔
لاورہ سٹیچل:ڈاکٹر لاورہ سٹیچل نے کیلفیورنیا یونیورسٹی سے میڈیکل میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی‘یہ 2008ء میں نائیجیریا گئی جہاں اس کا مقصد زچگی کے دوران شرح اموات میں اضافہ کے اسباب اور اس کے سدباب پر ریسرچ کرنا تھی۔

س دوران اس نے نوٹس لیا کہ سب سے اہم مسئلہ ڈاکٹروں کی تربیت نہیں بلکہ ہسپتالوں میں بجلی کا شدید بحران تھا‘ زیادہ تر ہسپتال میں بجلی کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا اور رات کے وقت لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں کام رک جاتا تھا ‘اس نے اپنی مدد آپ کے تحت ان ہسپتالوں کو بجلی فراہمی کا کام شروع کیا۔ لاورہ نے ان تمام ہسپتالوں کو سولر بلب فراہم کئے یوں چند ہفتوں میں بجلی سے محروم تمام ہسپتالوں کو بجلی فراہم کی جا چکی تھی جب لاورہ نائیجریا میں اس مشن میں کامیاب ہو گئی تو انہوں نے تمام ترقی پذیر ممالک میں واقع ہسپتالوں کو سولر بلب فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے 2009ء میں ’’وی کیئر سولر‘‘ کے نام سے ایک غیر منافع بخش ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارے اب27ممالک میں300سے زائد سولر سوٹ کیس فراہم کر چکا ہے اور یہ اقدام ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی زندگی بچانے میں مفید ثابت ہوا ہے۔
Newest
Previous
Next Post »